Mchoudhary

Add To collaction

ظُلمة أَوَّل اللَّيل 👣 بقلم ملیحہ چودھری

باب 16

..................

دروازہ جیسے ہی کھلا سامنے ایک بہت خوبصورت سی خدو خال کی ایک لڑکی کھڑی خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھی......

موٹی موٹی بڑی آنکھیں جو ہری رنگ کی پتلیوں کی تھی جن میں بھر بھر کا کاجل لگایا ہوا تھا، عنابی پنکھڑی دار کٹیلے لب جو بلکل گلاب کے پھول کے مانند لال سُرخ تھے، گھنے لمبے گھٹنوں سے نیچے تک آتے بال بلکل ایسے لگ رہے تھے جیسے آسمان میں گھنگھور گھٹائیں چھا گئی ہو، چاند سا چمکتا روشن چہرا اس وقت پورے کمرے کو روشنی سے روشن کر رہا تھا ، پتلی لچیلی کمر، دودھ جیسا رنگ وُہ نہایت ہی خوبصورت تھی.....   

"زہرہ زہرہ !! بابا جان کہاں اور ہے ؟ جب وہ بولی تو  اُسکے لبوں سے موتیاں کی لڑیوں میں پنہوتے الفاظ  پوری طرح مہک کر ادا ہوئے .....

"شہزادی نرگس !! بادشاہ سلامت آج جنّات کی دنیا کی سیر پر گئے ہیں..... زہرہ نے یہاں کی شہزادی نرگس کے بالوں کو کنگھا کرتے ہوئے جواب دیا....

یہ سن کر شہزادی نرگس ایک دم پلٹی تھی... اور کھڑی ہو گئی جو بال فخرالدین کو گھٹنوں سے نیچے تک لگ رہے تھے اب وہی بال فرش کو چھو کر وہاں پر کپڑے کے مانند ڈھانپ چکے تھے.......

"افعفف ایک تو یہ بال ! بابا جان انکی چوٹیاں بھی بنانے نہیں دیتے بولتے ہیں کہ شہزادی لمبے کھلے بالوں میں ہی خوبصورت لگتی ہے... وُہ من بناتے ہوئے بولی جس پر زہرہ ہنستے ہوئے شہزادی نرگس سے مخاطب ہوئی تھی.......

"شہزادی نرگس بادشاہ سلامت بلکل ٹھیک فرماتے ہے....... 

ویسے شہزادی نرگس میں کبھی کبھی یہ سوچتی ہوں جو شخص آپکو پہلی بار دیکھے گا قسم سے اسکو تو آپکو پہلی ہی نظر میں جنون کی حد تک عشق ہو جائے گا ..... ہائے وہ دن پتہ نہیں کب آئے گا ؟  

زہرہ ہاتھوں کو ایک دوسرے سے بجاتے ہوئے خوش کن انداز میں بولی تھی... جسکی بات پر نرگس مسکرا کر رہ گئی تھی.......

"زہرہ آپکو پتہ ہے میں اس خوابگاہ سے باہر اپنے قدم کیوں نہیں رکھتی ؟ آہستہ آہستہ شہزادی نرگس کھڑکی پر آ کر کھڑی ہو گئی آسمان کو تکتے ہوئے اُسنے اپنی دوست زہرہ جو کہ اُسکی خاص ملازمہ کے اوہدے پر بھی فائز تھی اُس سے پوچھا تھا.....

"نہیں شہزادی نرگس ! زہرہ نے نا میں گردن ہلا کر جواب دیا.....

شہزادی نرگس نے ایک لمبی سانس لی اور بولی...

"زہرہ ہم اپنی خوابگاہ سے باہر قدم اس لیے باہر نہیں نکلتے کیونکہ ہمارے اندر ایسی طاقتیں ہے جو کسی طاقتور جنّ سے ٹکرا جائے تو پوری جناتوں کی دنیا تباہ ہو جائے ....

"اور ویسے بھی جن اور جناتوں کی بہت پرانی دشمنی ہے وُہ ہماری جان کے پیاسے ہے.... 

آپ کہتی ہو کہ جو بھی ہمکو دیکھ لیں گا تو ہم سے بے تحاشہ عشق کرنے لگے گا...

آپکو پتہ میرا بھی دل اس قید کی دنیا سے باہر جانے کو کرتا ہے دل کرتا پورے جنّات کی دنیا کی اپنے ہمسفر کے ساتھ سیر کروں .....

"لیکن لیکن ! وُہ پلٹی تھی اور اُسکے پاؤں میں پڑی پایل کی چھنکار نے ایک دم خوابگاہ کی خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا تھا......

"کیا لیکن شہزادی نرگس ؟ زہرہ نے سوال کیا.....

"لیکن میری سب سے بڑی خواہش ہے کہایران ہمسفر ایک آدم ذات ہو .......

"کیا ا ا ؟ ...زہرہ کے تو ہوش ہی اُڑ گئے تھے شہزادی کی خواہش کو سن کر......

"پر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے شہزادی کہ آپکا ہمسفر آدم ذات ہی بنے ؟ یہ پوچھتے ہوئے زہرہ کے ماتھے پر کئی سلوٹیں پڑی تھی....

شہزادی اُسکے سوال پر ہلکا سہ مسکرائی ...

"ہہہہہہ ! 

کیا آپ نہیں جانتی شہزادی کہ آپکا رشتہ بادشاہ سلامت نے کُرکرم کے شہزادے جبیل سے کیا ہوا ہے ؟

"کیا آپ اُنسے منسوب نہیں ہے ؟ 

"شہزادی نرگس اگر بادشاہ سلامت کو آپکی اس خواہش کا ذرا بھی علم ہو گیا تو وہ آپکو ہمیشہ کے لیے حراست میں لے سکتے ہیں .... 

زہرہ بہت پریشان ہو گئی تھی.... اس لیے اُسنے نرگس کو بہت کچھ یاد دلانا ضروری سمجھا تھا جو اُنکی زندگی اُنکی ذات سے وابسطہ تھا......

"پر زہرہ اُسکا کیا جس سے ہم بے پناہ محبّت کرتے ہیں ..... آنکھوں کے کناروں سے اشک ٹوٹ کر گرے تھے جنکو فخرالدین نے موتی بنتے ہوئے دیکھا تھا...

اسکو بھی اس شہزادی کی انوکھی خواہش پر بہت حیرت ہو رہی تھی......

"تمہیں پتہ ہے زہرہ عشق وُہ بہتا جھرنا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی کو بہتا بہت رفتار میں ہے لیکن کوئی منزل نہیں ہوتی اُسکی .....

ہلکے سے مٹکے سے نالی میں نالی سے نہروں میں نہروں سے ندیوں میں ندیوں سے بہتے جھرنے میں اور جھرنوں سے ایک سمندر تک پانی پہنچتا ہے لیکن بات سمندر پر ہی ختم نہیں ہوتی.... پانی کی رفتار کی وُہ وہاں سے بھی کئی کئی الگ جگہ کا سفر طے کرتا ہے........

عشق بھی ایسا ہی ہے زہرہ عشق بھی ایسا ہی ہے...

یہ کئی سفر طے کرتا ہے.... کسی کو اُس سفر کی منزل مل جاتی ہے اور کسی کو وُہ سفر قربان کرنا پڑتا ہے کہیں عشق میں پانے کی طلب بڑھ جاتی ہے تو کہی عشق میں قربان کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے... عشق کا نام پانا ہی نہیں زہرہ عشق کا نام تو ایک انتہا ہے جسکی کوئی انتہا نہیں ہوتی..... جو ایک جگہ نہیں رکتا بس چلتا جاتا ہے چلتا جاتا ہے کوئی منزل نہیں کوئی ٹھکانہ نہیں ....

اس بار موتیوں کی بوچھار آنکھوں سے ہونے لگی تھی......

"زہرہ میں جانتی ہوں کہ میں جبیل سے منسوب ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں جبیل آج آنے والے ہے اُنکی اور میری ملاقات پہلی ہوگی... وُہ ایک عام شہری بن کر مُجھسے ملنے آئے گے......

"پر زہرہ میں اُنکی نہیں ہو سکتی نہیں ہو سکتی میں اُنکی زہرہ ... اس بار وُہ دھاڑے مار مار کر رونے لگی تھی ....

"فخرالدین کے دل کو کچھ ہوا تھا.... 

"شہزادی وُہ آدم ذات کون ہے کہاں سے ہے کیا آپ کبھی اُنسے ملی ہے ؟  زہرہ نے سوال کیا....

"اُسکے سوال پر نرگس نے چہرا اٹھایا تھا اور پھر خاموشی سے ایک طرف رکھے کانچ کی ایک گول چمکدار چیز کی طرف بڑھ گئی تھی.....

وہاں جا کر اُسنے اُس چمکدار چیز پر اپنا ہاتھ رکھا ہاتھ کے رکھتے ہی ایک دم سے اُس میں سے کئی رنگوں کی روشنیاں نکلنے لگی اور پھر اُسنے سے کسی انسان کا چہرا دکھائی دیا تھا.......

"فخر ! بسس اتنا کہا گیا تھا اور وہ روشنی ایک دم سے مدھم پڑتی ہوئی بلکل ختم ہو گئی تھی ... زہرہ نے جو انسان کا چہرا دیکھا تھا اسکو بلکل بھی یقین نہیں آیا تھا کہ یہ بلکل شہزادے جبیل سے مساہبت رکھتا تھا......

اُسکے بعد شہزادی نرگس خاموشی سے اپنی آنکھوں کو بند کر کے ایک کرسی سی ٹیک لگا کر بیٹھ گئی جبکہ زہرہ کو ہاتھوں کے اشارے سے باہر جانے کا بول دیا تھا جبکہ زہرہ بھی کوئی سوال کیے بغیر وہاں سے چلی گئی تھی.....

اُسکے جاتے ہی فخرالدین نے خوابگاہ کے اندر اپنے قدم رکھے تھے... جیسے ہی قدم خوابگاہ میں رکھے گئے تھے کہ شہزادی نرگس نے کسی احساس کے تحت اپنی آنکھیں کھولیں تھی....

"سامنے اپنے عشق کو روبرو دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی تھی...... 

"اآپ ؟ بسس زبان سے اتنا ہی نکلا تھا.....

"میرے ساتھ چلو فخر نے کہا ! 

"شہزادی نے نا میں گردن ہلائی ......

"کیوں ؟ سوال کیا گیا..... 

"میں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی محبّت سے مل لو تُم اپنی محبّت کو حاصل کر لو..... وُہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جس محبّت کو وُہ اسے سے ملوانا چاہتا تھا وہ خود ہی تھا....

"ٹھیک ! اگر آپ میری مدد کرنا چاہتے ہیں تو بسس ایک کام کر دیں..... میں اس دنیا میں جہاں آگ کی ملکہ کے روپ میں جانی جاتی ہوں ایک انسان سے نہیں مل سکتی نہ اپنی محبّت حاصل کر سکتی....

"دور جنّات لوک کے ختم ہوتے ہی سات جھرنے بہتے ہیں اُن سات جھرنوں کے درمیان میں ایک سیپ ہے جس میں ایک بہت بڑا چمکتا ہوا روشن موتی......

"اگر اُس سیپ کو کوئی آدم ذات چھو لے گا تو اُسکی روشنی مدھم پڑتی جائے گی اور اُسکے ساتھ ساتھ میری سانسیں بھی.... 

"میں جب اس دنیا سے ختم ہو جاؤں گی تو میرا روپ انسانوں کی دنیا میں جنم لیگا جبکہ میرے عشق بھی دوبارہ جنم لے گا..... 

ہم اُس دنیا میں جا کر ایک ہوگے... اس دنیا میں ایک جنّات اور ایک آدم ذات یہ دونوں وجود کبھی ایک نہیں ہو سکتے .......

شہزادی نرگس نے اپنے سامنے کھڑے آدم ذات کو اپنی آنکھوں سے دل میں اتارتے ہوئے کہا تھا......

یہ سب سننے کے بعد فخر تھوڑا پریشان ہو گیا تھا...

"لیکن میں یہ کیسے کر سکتا ہوں میں اپنے ہاتھوں سے کسی کی جان نہیں لے سکتا.... بے بس ہو کر جواب دیا تھا....

"آپ میری جان نہیں لے رہے بلکہ مجھے زندگی دے رہے ہیں ... آپ جلدی کریں کیونکہ آج شام شہزادے جبیل آ رہے ہیں اُنکے آنے سے پہلے پہلے آپکو یہ سب کرنا ہوگا ...

"آپ میرا یہ پوشیدہ اُڑن خٹولہ لے کر چلے جائے ہر مشکل سے یہ آپکو بچا لے گا.....

اُسنے کہا تھا اور فخر کو نا چاہتے ہوئے بھی جانا پڑ گیا تھا.......

سورج غروب ہونے میں دس منٹ تھے جب وُہ سات جھرنوں کے درمیان کھڑا تھا..... اُسکے بہتے صاف شفاف پانی  کے اندر سب بہت خوبصورت اور صاف نظر آ رہا تھا... جناتوں کی دنیا میں وُہ کبھی آئے گا وہ نہیں جانتا تھا....

"یہاں وہاں نظریں اُسنے دوڑائی تو اسکو وُہ سیپ نظر آ گیا.... لیکن اُسنے دیکھا کہ اُسکے آس پاس ایک بہت بڑی مچھلی اُس سیپ کی دیکھ بھال کر رہی ہے..... جو کہ دیکھنے سے ہی بہت خطرناک لگ رہی تھی........

وُہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر وہاں چلا گیا مچھلی کی نظروں سے چُھپ چھپا کر وُہ سیپ تک پہنچا اسکو کھول کر جیسے ہی اُسنے وُہ موتی چھوا تو اُسکی چمکدار روشنی کم ہونے لگی اور ایک دم جیسے ہی وہ پلٹا تو اس مچھلی نے اُس پر حملا کر اسکو اپنا کھانا بنا ڈالا..........

اِدھر فخرالدین اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اُدھر شہزادی نرگس اٹکتے ہوئے لمبی لمبائی سانس لیتی بڑ بڑائی .....

"مجھے  معاف کرنا فخر ہم دونوں کو ہی مرنا ہوگا... 

کیونکہ تُم ہو تو نرگس ہے اور فخر نہیں تو نرگس بھی نہیں ..... شہزادی جبیل جیسے ہی نرگس کی خوابگاہ میں آئے تھے تو اُس وقت نرگس سانسیں کھینچ کھینچ کر لے رہی تھی......

یوں لمبی سانسوں کو لیتے دیکھا روب وُہ سمجھ گئے تھے....... اپنے غلاموں کو اُنہونے سات جھرنوں کے درمیان بھیجا جبکہ نرگس کو اپنے باہوں میں بھرا.... اُس وقت نرگس کی ایک دو سانسیں ہی چھل رہی تھی.........

"آگ کی ملکہ تُم نہیں جا سکتا نہیں جا سکتی... وُہ چیخیں چلائیں لیکن کچھ بھی نہیں ہوا ... جب تک اُنکے غلام سات جھرنوں سے ایک مری ہوئی مچھلی کو اٹھا کر لے آئے تھے.... شہزادے جبیل نے جب اُس مچھلی کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ آدم ذات کھانے کی وجہ سے مری ہے...... 

"کون تھا وہ آدم ذات یہ بات اُنکو جب پتہ چلی جب اُنکو زہرہ نے شہزادی نرگس سے ہونے والی ساری باتیں رو رو کر بتائی تھی.....

پورے جنّات لوک میں ایک طوفان برپا ہو گیا تھا جنّات خود ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے.....

"اچھا نہیں کیا نہیں کیا اچھا ....!! ایک جبیل کو تمنے اے آدم ذات شیطان بنا دیا اب جب جب تُم دونوں جنم لو گے میں تمہارے درمیان رہوں گا... یہ میرا کارل کا وعدہ ہے خود سے........

دادو روتے ہوئے بتا رہی تھی.... بہت رو رہی تھی دادو جبکہ وہاں کھڑا ہے شخص بہت رو رہا تھا... دروازے کے پیچھے کھڑی اینجل سن ہوتے دماغ کے ساتھ یہ سب سن رہی تھی......

"دادو فخر دکھنے میں کیسے تھے؟ شمع نے بہت دیر سے مچلتے سوال کو لفظ دیے تھے.....

"تمہارے جیسے شمع بلکل تمہارا جیسا تھا فخر دادو نے اپنے دوپٹے سے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بتایا...

"ایک اور بات دادو یہ بات آپکو کیسے پتہ چلی ؟ شمع نے اُلجھن سے پوچھا.......

"تبھی کارل نے ہماری پورانی حویلی پر اپنے کالے سائے کو پھیلا دیا تھا.... اور چیخ چیخ کر وُہ ہم سب کو یہ داستان بھی سنا رہا تھا بول رہا تھا کہ جب بھی اُسکی آگ کی ملکہ اس دنیا میں پیدا ہوگی وہ اسکو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ساتھ لے جائے گا .....

اُسنے ایک تصویر شہزادی نرگس کی ہمکو دکھائی تھی جو بلکل اینجل سے میں ملتی تھی.... اب وہ واپس آ گیا ہے شمع وُہ آ گیا ہے واپس وُہ سوچتا ہے کہ ہم نے اُسکی ملکہ کو چھینا ہے اُس سے ......

کچھ کرو شمع کچھ کرو صرف تُم وحید ہو جو اسکو بچا سکتے ہو اُس شیطان سے .......

دادو وہاں کھڑا ہے شخص رو رہا تھا.......

"کیا ہوگا اب ؟  
کیا اس بار بھی دو محبّت کرنے والے وجود الگ ہو جائے گے ؟ کیا ماضی پھر سے دہرائیں جائے گا ؟
........................…...❣️❣️❣️

Epi 16 has been published now 
Go nd read n ur reviews 😅😅😅
Kaisa lga jroor btana ....


   0
0 Comments